(محمد مختارؔ علی)
چراغِ رہگزر، اندر سے ہم کتنے اکیلے ہیں !!
کسی کو کیا خبر اندر سے ہم کتنے اکیلے ہیں
–
ذرا سا شور بھی دِل کے لئے بارِ سَماعت ہے !!
سکوتِ بام و در اندر سے ہم کتنے اکیلے ہیں
–
کوئی رُکتا نہیں ، سُنتا نہیں رُودادِ تنہائی
بہ مثلِ رہگزر اندر سے ہم کتنے اکیلے ہیں
–
بَظاہر کٹ رہا ہے وقت ہنستے کھیلتے اپنا !
عزیزانِ سفر اندر سے ہم کتنے اکیلے ہیں
–
سجا لیتے ہیں بزمِ دوستاں حیلوں بہانوں سے
حقیقت میں مگر اندر سے ہم کتنے اکیلے ہیں
–
میّسر ہیں چراغ و انجم و مہتاب و آئینہ
بھری محفل ہے پر اندر سے ہم کتنے اکیلے ہیں
–
جَمالِ یار سے رونق سہی مختارؔ منظر میں
پَر اے جانِ جگر اندر سے ہم کتنے اکیلے ہیں