(شوکت محمود شوکت)
ایک شورِ ناگہانی ، میں قرنطینہ میں ہوں
ہے وبائے آسمانی ، میں قرنطینہ میں ہوں
شہر سونے ہو گئے ہیں ، رونقیں مفقود ہیں
منجمد ہے زندگانی ، میں قرنطینہ میں ہوں
سب برابر ہو گئے ہیں ، کیا امیر و کیا غریب
ہو کوئی راجا کہ رانی ، میں قرنطینہ میں ہوں
ایک پل کو بھی نہیں جمتی بساطِ دوستاں
اب کہاں وہ ’’ یار جانی ‘‘ ، میں قرنطینہ میں ہوں
جس کو دیکھو ، ہے مقید ، اپنے اپنے غار میں
ہو گئی دنیا پرانی ، میں قرنطینہ میں ہوں
آ گیا سب کی سمجھ میں ’’ کلُّ نَفْسِِ ذائقہ ‘‘
بالیقیں ہر شے ہے فانی ، میں قرنطینہ میں ہوں
ایک مشتِ خاک کی وقعت یہی ، وہ خاک ہے
کیا بڑھاپا کیا جوانی ، میں قرنطینہ میں ہوں
ہے عبث ، جو گلستاں میں ، ان دنوں ہے اوج پر
فصلِ گل کی راج دھانی ، میں قرنطینہ میں ہوں
ختم ہونے کو ہے شوکتؔ ! داستانِ کُل جہاں
پھر نئی ہو گی کہانی ، میں قرنطینہ میں ہوں